آرٹسٹ اور قرنطینہ
کرونا وائرس اور ہم ناچیز
نام کاغزوں پر تو ماہم ناز ہے ، مگر کچھ محبت کرنے والے دوست اور کچھ سانپ بھی " ماہی " کہ کر بلاتے ہیں
سرامک ڈیزائن میں قسمت آزمائی ہو رہی ہے ، انگلش لٹریچر میں ہوتے ، ضرور انگریزی ہانپتے ، کیا ہے کہ فیلنگ آتی ہے
اپنی زبان میں تحریر کے بعد اپنی رائے ضرور دیجئے گا ،
بے شک ، خوف اور بے یقینی کا عالم ہے ، سنا کرتے تھے موت کا خوف انسان میں نفسا نفسی پیدا کرتا ہے ہر بشر روح خوف
میں مبتال ، میڈیا سے آتی سنسنی ، ہر جا ، موت کی خبریں ، اور غریب کے گھر ناچتی بھوک ، امیر کی جمع دولت اسکی
پریشانی –
انسانیت کی جگہ صرف ہنر دیا جانا ، وہ نعرہ " گھر نہیں بیٹھونگی "
وہ ہوتا تماشہ " میرا جسم میری مرضی "
وہ وقت جب "ننھے پھول مسلے جاتے رہے "
جب ہر جرم ہوتا رہا مگر ڈر ؟ ڈر ؟
ڈر آج ہی محسوس ہوا ، سمجھ میں آیا کیوں ؟
جی ہاں ، آج مرنے والے میں شائد میں ہوں ،
آج جس کا بھائی ، باپ ، ماں ، بیٹا ، بیٹی لٹے گا ، وہ میں ہوں –
چلیے ، اپنی آپ بیتی پر آتے ہیں ، ورنہ لکھنا پڑے گا ، سوال اٹھانا پرے گا ، کہ ' لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے "
کتنی لمبی شام ہے یہ –
شائد اس لیے کہ شائد ہم عرصہ دراز سے سب سے ملتے رہے سوائے آپنے ، آج خود کو دیکھا ، ملے ، سلام دعا ہوئی ، آچھا لگا –
وہ جون صاحب کہتے تھے ،
مجھ سے ملنے کو آپ آئے ہیں
بیٹھیے میں بلا کرلاتا ہوں
آج پتا چلا کہ ہم اکثر وہاں رہتے ہیں جہاں ہم نہیں رہتے –
آج خود سے کلام ہوا ، پوچھا کہ دو رستے سامنے ہیں ایک ڈر ہے ، دوسرا لالچ –
میں لکھ دوں انسان کی سوچ انہی دونوں پہلووں پر ہے ڈر یا لالچ اسے کسی چیز کی طرف مائل کر سکتا ہے –
جنت کی لالچ ، اور دوزخ کا خوف ،
میں خود کو ولی ، پیر ، بہت اونچا انسان نہیں کہتی ، مگر صبح اس نتیجے پر پہنچی کہ ،
اللہ سے ڈر لو ، یا کرونا سے –
سر جھکانہ ہے اب کدھر ؟ اب یہاں سب پڑھنے والے کہیں گے سب اللہ سے ہی رڈرتے ہیں ،
جی بلکل ، مگر علم بنا عمل ، زہر ہے
خیر حقیقی زندگی میں سب' نہیں ڈرتے –
خیر یہ کلام فجر سے پہلے ہوا ، اکیلا ہونا ، خاص کر آرٹسٹ کے لیے زیادہ خوفناک ہے ، اور پھر وائرس کا علم بھی نہ ہو ،
میڈیا سے آتا خوف سارا دن ٹی وی ، یہ سب بھی ساتھ ہی تھا
خود کو جھنجوڑا ، نماز ادا کی ، قرآن کریم پڑھا ، اور پھر بیٹھے سوچنے ، *بڑین سٹورمنگ* یعنی دماغ پر زور ، وہ یاد آیا ،
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے ، وہ –
اصل میں ہم سے کہی تعلیم نظام یاد رہے یہ سب نہیں جو کاٹھے انگریز والا ہے اسے کہا ، ہم سے چھین لی تھی –
آج جب سوچنا شروع کیا ، تو آحساس ہوا ، کرونا آیک موت کا دکھ لایا ، ہاں ، آپ نے میں نے سب نے مرنا تو ہے ،
آج جب سوچنا شروع کیا ، تو آحساس ہوا ، کرونا آیک موت کا دکھ لایا ، ہاں ، آپ نے میں نے سب نے مرنا تو ہے ،
مگر مثبت کیا تھا ؟
صبح ہو رہی ہے ، ماں جی ناشتہ دیتی ہیں ، سب ہنستے ہیں ، جو ہے خوش ہو کہ کھا رہے ہیں ،
ہم جدت اور پرانے خیالت کے درمیان پھنسے لوگ ، موبائل کو زیادہ اور ماں باپ سے کم ملتے رہے ، ہاسٹلٹ ہوں ، تو شائد
زیادہ احساس ہو ، کیا ہوتا ہے گھر ، زندگی کیا ہے ، انسان خود چاہے تو حاالت جو بھی ہو خوش رہ لیتا ہے ، اور جسے نہیں
رہنا اس نے نہیں رہنا –
تھورا کام کر لیا ، پینٹنگ کی ، اللہ اللہ کیا ، اور کسی کی ایک بات مانی –
سات سے گیارہ تک ٹی وی نہیں دیکھنا – لے جی زندگی گلزار ہے ، وقت جیسا بھی ہوں
حاالت برے ہوں ، درد ہو یا موت کا خوف ، کوئی پیدا ہوں یا مر جائے ، لاش ہو شامیانے لگے ہوں ، محبت ہو نفرت ، دوست ہوں
یا سانپ ،
گھڑی چلتی ہے ، دن چوبیس گھنٹے کا ہی ہے ، درد سے موت تک ہر چیز کی دعا ،
وقت ، اور صرف زندگی میں اب ماضی چوڑیے ، حال میں رہیے ، گھر میں رہیے خود سے اور اپنے گھر والوں سے محبت یہی
ہے اس وقت ، اور وہ وقت دور نہین جب یہ عزاب جو شائد آغاز میں لکھے ہمارے معاشرے کے جرم کا نتیجہ ہو جلد ٹل جائے گا،
حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کو معافی مل گئی ہمیں بھی ملے گی جو بھی گناہ تھے نادم ہو کے دیکھ لیں کیونکہ آیک جگہ
جھکنا ہے ، اللہ کے سامنے یا انسانوں کے
اوراللہ امید نہیں یقین ہے
یہ وقت بھی گزر جائے گا –
اللہ سب پر اپنی رحمت فرمائے ،